Published: 2018 & Pages: 624
In the fourteenth century, an Egyptian historian named Ibn Khaldun suggested that generations follow a pattern of four types. The first type is a generation of change and revolution. Then (2nd) comes a generation that seeks order and stability. The third type focuses on practicality and comfort, while the fourth is characterized by curiosity and skepticism. Each generation is influenced by the one before it.
For example, in the early twentieth century, the US had the Silent Generation, who grew up during the Great Depression and World War II, embracing conservative values. They were followed by the Baby Boomers, who rebelled against their conservative parents in the 1960s and ’70s. Generation X came next, valuing pragmatism and self-reliance. Then came the Millennials, who emphasize teamwork and oppose conflict.
Understanding how generational values affect decision-making is crucial in today’s highly connected world. We’ll likely see global trends in future generations. By understanding today’s context, we can better grasp the spirit of tomorrow.
Our awareness of mortality greatly influences our decisions. While it’s natural to avoid thinking about death, embracing it can motivate us to live fully and empathetically. Death unites us all, making us equals. When Flannery O’Connor and Fyodor Dostoyevsky faced mortality, they became more empathetic and enthusiastic about life. They found wonder in the gift of existence. So, instead of going through life passively, take time to appreciate the remarkable gift of life and do something beautiful to honor it.
چودھویں صدی میں ایک مصری مؤرخ ابن خلدون نے تجویز کیا کہ نسلیں چار اقسام کے پیٹرن کی پیروی کرتی ہیں۔ پہلی قسم تبدیلی اور انقلاب کی نسل ہے۔ پھر (دوسری) ایک نسل آتی ہے جو نظم و استحکام کی تلاش میں رہتی ہے۔ تیسری قسم عملییت اور آرام پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جبکہ چوتھی قسم تجسس اور شک پر مبنی ہوتی ہے۔ ہر نسل پچھلی نسل سے متاثر ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر، بیسویں صدی کے اوائل میں، امریکہ میں خاموش نسل تھی، جو عظیم کساد بازاری اور دوسری جنگ عظیم کے دوران پروان چڑھی اور قدامت پسند اقدار کو اپنایا۔ ان کے بعد بیبی بومرز آئے، جنہوں نے 1960 اور 70 کی دہائیوں میں اپنے قدامت پسند والدین کے خلاف بغاوت کی۔ پھر جنریشن ایکس آئی، جس نے عملییت اور خود انحصاری کی قدر کی۔ اس کے بعد ملینیئلز آئے، جو ٹیم ورک پر زور دیتے ہیں اور تنازعات کی مخالفت کرتے ہیں۔
آج کی انتہائی منسلک دنیا میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کس طرح نسلی اقدار فیصلہ سازی کو متاثر کرتی ہیں۔ مستقبل کی نسلوں میں عالمی رجحانات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ آج کے تناظر کو سمجھ کر ہم کل کی روح کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
ہماری فانی ہونے کی آگاہی ہمارے فیصلوں پر بہت زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ اگرچہ موت کے بارے میں سوچنے سے گریز کرنا فطری ہے، لیکن اس کو قبول کرنا ہمیں زندگی بھرپور اور ہمدردی کے ساتھ جینے کی ترغیب دیتا ہے۔ موت ہم سب کو متحد کرتی ہے اور ہمیں برابر بنا دیتی ہے۔ جب فلیئنری او کونر اور فیودر دوستویفسکی نے موت کا سامنا کیا، تو وہ زیادہ ہمدرد اور زندگی کے بارے میں پرجوش ہو گئے۔ انہوں نے وجود کے تحفے میں حیرت پائی۔ لہٰذا، زندگی کو غیر فعال طور پر گزارنے کے بجائے، وقت نکال کر زندگی کے اس حیرت انگیز تحفے کی قدر کریں اور اسے خوبصورت طریقے سے منائیں۔
Ibn Khaldun
Change and revolution, order and stability, practicality and comfort, curiosity and skepticism.
The Silent Generation
Baby Boomers
Pragmatism and self-reliance
Teamwork and opposition to conflict
It helps us anticipate future trends and better understand the spirit of tomorrow.
It can motivate us to live fully and empathetically.
Death, which makes us equals.
They became more empathetic and enthusiastic about life and found wonder in the gift of existence.